آخری چراغ

 آخری چراغ

📘 آخری چراغ
(ایک روحانی، اخلاقی، اور جذبے سے بھرپور اردو ناول)
تحریر: ChatGPT برائے Blogger پوسٹ



✨ باب اول: خاموش گاؤں کا شور

پاکستان کے ایک دُور افتادہ علاقے میں ایک گاؤں واقع تھا جس کا نام تھا چراغ نگر۔ یہ گاؤں پہاڑوں کے دامن میں، سرسبز وادیوں میں چھپا ہوا، نہایت پر سکون، خاموش اور وقت سے الگ تھلگ تھا۔ یہاں نہ بڑے بازار تھے، نہ گاڑیوں کی چہل پہل، اور نہ موبائل فون کے سگنلز۔

یہاں کے لوگ سادہ، خاموش اور خدا پر یقین رکھنے والے تھے۔ اُن کا تعلق زمین سے تھا، اور دلوں میں نرم خوئی۔ یہاں کے بزرگ دن کا آغاز اذان کے ساتھ کرتے، اور سورج غروب ہونے سے پہلے تسبیح مکمل کرتے۔

اسی گاؤں میں ایک چودہ سالہ لڑکا فراز اپنی نانی بی بی حلیمہ کے ساتھ رہتا تھا۔ اس کے والدین شہر میں کسی حادثے میں انتقال کر چکے تھے۔ بی بی حلیمہ نے اس یتیم بچے کو ماں، باپ، استاد، اور دوست بن کر پالا۔

فراز ایک عام بچہ تھا — کبھی پہاڑوں پر بکریاں چراتا، کبھی ندی کے کنارے بیٹھ کر کنکر پانی میں پھینکتا، اور کبھی دیر تک آسمان کی طرف دیکھتا رہتا۔ مگر وہ اندر سے مختلف تھا۔ وہ بہت کچھ جاننا چاہتا تھا، سمجھنا چاہتا تھا۔ اُس کے سوال سیدھے دل سے نکلتے:

"نانی، کیا اللہ ہماری آواز سنتے ہیں؟"

"کیا جو لوگ مر جاتے ہیں، وہ ستاروں میں چلے جاتے ہیں؟"

"کیا سچ بولنے سے ہمیشہ جیت ہوتی ہے؟"

بی بی حلیمہ ہنستی تھیں، دعائیں دیتی تھیں، اور کبھی کبھار آنکھوں سے آنسو پونچھتی تھیں۔

🔥 باب دوم: وہ اجنبی جو چراغ لایا

ایک رات گاؤں کے قریب ایک اجنبی آیا۔ اس کے پاس نہ سامان تھا، نہ نام، صرف ایک پرانا سا چراغ تھا، جس میں ایک ہلکی روشنی جل رہی تھی۔ وہ مسجد کے قریب ایک کٹیا میں ٹھہرا اور اگلے دن کے بعد بچوں کو قرآن پڑھانا شروع کر دیا۔

لوگوں نے اسے "بابا چراغ دین" کہنا شروع کر دیا۔ مگر اس کا اصل نام کسی کو نہیں پتا تھا۔

فراز اُس سے بہت متأثر ہوا۔ وہ روز اُس کے پاس بیٹھتا، قرآن سنتا، سوالات کرتا، اور جواب پاتا۔

ایک دن فراز نے پوچھا:

"بابا، یہ چراغ کیوں ہمہ وقت جلتا ہے؟ کیا یہ بجھتا نہیں؟"

بابا چراغ دین نے مسکرا کر کہا:

"یہ چراغ اُس روشنی کی علامت ہے جو دل میں جلتی ہے۔ اگر سچ، صبر، قربانی اور دعا کا تیل ڈالا جائے، تو کبھی بجھتا نہیں۔"

⛰️ باب سوم: امتحان کا آغاز

ایک دن گاؤں میں افواہ پھیلی کہ پہاڑوں کے اس پار دشمن قبیلہ حملہ کرنے والا ہے۔ سب لوگ خوف زدہ ہو گئے۔ چراغ نگر کے مرد بہت کم تھے، زیادہ تر بزرگی یا بیماری کی وجہ سے کمزور تھے۔

فراز نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے چراغ کی روشنی سے گاؤں کو بچائے گا۔ اُس نے بابا چراغ دین سے پوچھا:

"کیا میں دشمن کے قبیلے میں جا سکتا ہوں؟ اگر میں اُن سے بات کروں، شاید جنگ رک جائے؟"

بابا چراغ دین نے کہا:

"تم جا سکتے ہو، مگر صرف وہ جا سکتا ہے جس کا دل سچا ہو۔ اگر تم جھوٹ سے بچ سکو، ڈر پر قابو پا سکو، اور اپنے نفس کو شکست دے سکو — تو تم کامیاب ہو گے۔"

🌄 باب چہارم: پہاڑوں کی راہ

صبح کا وقت تھا۔ پہاڑوں پر سورج کی پہلی کرنیں روشنی بکھیر رہی تھیں۔ فراز نے اپنے چھوٹے سے تھیلے میں کچھ خشک روٹیاں، ایک کمبل، اور بابا چراغ دین کا دیا ہوا ایک تعویذ رکھا۔ نانی نے آنکھوں میں آنسو لیے الوداع کہا۔

بابا چراغ دین نے اُسے وہی پرانا چراغ دیا اور کہا:

"یہ تمہارے دل کی روشنی کا امتحان ہے۔ اگر بجھ جائے، تو جان لو دل میں اندھیرا آ گیا ہے۔"

راستے میں فراز نے زخمی لومڑی کی مدد کی، سچ بولنے کا امتحان پاس کیا، اور چراغ کی روشنی کو بڑھتے دیکھا۔

🏰 باب پنجم: قید کا قلعہ

فراز کئی دن کا سفر طے کر کے آخرکار دشمن قبیلے کے علاقے میں داخل ہوا۔ وہاں کا ماحول اجنبی، سخت، اور خطرناک تھا۔ ہر طرف محافظ، قلعہ بند دروازے، اور خوف کا عالم۔

پہلے ہی دن اُسے ایک سپاہی نے پکڑ لیا۔

"تم کون ہو؟ یہاں کیوں آئے ہو؟"

فراز نے سچ بولنے کا فیصلہ کیا:

"میں چراغ نگر سے آیا ہوں۔ جنگ روکنے آیا ہوں۔ میں صرف صلح چاہتا ہوں۔"

یہ سنتے ہی اُسے قید میں ڈال دیا گیا — ایک تاریک، سرد، نم دار کوٹھری میں۔ وہاں کا اندھیرا اُسے نگلنے لگا۔

لیکن پھر ایک دن، اُسی کوٹھری میں ایک آواز آئی:

"تم فراز ہو؟ چراغ نگر سے آئے ہو؟"

یہ ایک لڑکی کی آواز تھی — نرم، پُر اعتماد، اور شفاف۔

"میں ریحا ہوں۔ اُس قبیلے کی بیٹی جس سے تم جنگ روکنے آئے ہو۔ میرے باپ نے تمہیں قید میں ڈالا، لیکن میں تمہاری بات سننا چاہتی ہوں۔"

فراز نے اسے پوری کہانی سنائی: گاؤں، بابا چراغ دین، چراغ، قربانی، اور اپنے سفر کے تمام مراحل۔

ریحا کی آنکھیں بھر آئیں۔

"میں اپنے قبیلے میں بات کروں گی۔ شاید ہمیں واقعی روشنی کی ضرورت ہے۔"

🌸 باب ششم: روشنی کا فیصلہ

ریحا نے ہمت جمع کی اور اپنے والد **سردار ظفر خان** سے بات کی۔ پہلے تو سردار غصے میں آ گیا، لیکن پھر ریحا نے کہا:

"ابّا، جب ہم چھوٹے تھے تو آپ کہتے تھے: سچ وہی ہے جو دل کو سکون دے، اور جنگ وہ ہے جو دل کو جلا دے۔"

سردار خاموش ہو گیا۔ اُس کی آنکھیں کچھ لمحوں کے لیے نم ہوئیں۔

ریحا نے فراز کی بات قبیلے کی مجلس میں رکھی۔ لوگ حیران بھی تھے، متاثر بھی۔ فراز کو وہاں بلایا گیا۔

فراز نے کہا:

"اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے بچوں کو بھی وہی سبق پڑھا سکتا ہوں، جو بابا چراغ دین نے ہمیں سکھایا۔"

سردار نے کہا:

"کیا تم ہمیں وہ چراغ دکھا سکتے ہو؟"

فراز نے چراغ نکالا — اور حیرت کی بات یہ تھی کہ چراغ کی روشنی اب اتنی تیز تھی کہ پورا خیمہ جگمگا گیا۔

لوگ ساکت ہو گئے۔ سردار نے سر جھکا دیا اور کہا:

"اگر ایک بچہ جنگ روکنے نکل سکتا ہے، تو ہم کیوں نہ رکیں؟"

☀️ باب ہفتم: چراغ نگر کا سورج

فراز واپس آیا — لیکن اب وہ صرف ایک بچہ نہیں تھا، وہ روشنی کا پیغام لے کر لوٹا تھا۔ چراغ نگر میں جشن ہوا، دعائیں ہوئیں، اور ایک نیا سورج طلوع ہوا۔

بابا چراغ دین مسکرا رہا تھا۔ فراز نے پوچھا:

"بابا، آپ کا اصل نام کیا ہے؟"

بابا نے کہا:

"میرا نام روشنی ہے… جو تمہارے اندر جاگ گئی ہے۔"

___

📖 **اختتام:**
کہانی صرف فراز کی نہیں، ہر اُس انسان کی ہے جو سچائی، قربانی اور محبت کے چراغ کو لے کر اندھیرے میں چلتا ہے۔ اگر ہم بھی اپنے دلوں میں سچ کا تیل ڈالیں، تو اندھیرے مٹ سکتے ہیں۔

تبصرے