سفرِ عشق و دوستی

 سفرِ عشق و دوستی



ایک زمانے میں، دریائے سندھ کے کنارے ایک چھوٹا سا گاؤں بستا تھا جس کا نام تھا نور پور۔ یہ گاؤں اپنی سرسبز کھیتوں، رنگ برنگے پھولوں اور مہربان لوگوں کی وجہ سے مشہور تھا۔ اس گاؤں میں دو دوست رہتے تھے، ارسلان اور زینب۔ ارسلان ایک جوشیلا، ہنس مکھ اور بہادر نوجوان تھا، جبکہ زینب ایک سادہ، ذہین اور حساس لڑکی تھی۔ دونوں کی دوستی گاؤں میں مشہور تھی۔ لوگ کہتے تھے کہ ارسلان اور زینب کی دوستی ایسی ہے جیسے چاند اور سورج، جو ایک دوسرے کے بغیر ادھورے ہیں۔

ارسلان کے والد ایک کسان تھے، جو اپنی محنت سے گاؤں کے لوگوں کے لیے اناج اگاتے تھے۔ زینب کے والد ایک اسکول ٹیچر تھے، جو گاؤں کے بچوں کو علم کی روشنی سے منور کرتے تھے۔ دونوں خاندان غریب تھے، لیکن ان کے دلوں میں امیدیں اور خواب بہت بڑے تھے۔ ارسلان اور زینب بچپن سے ایک دوسرے کے ساتھ کھیلتے، ہنستے، اور اپنے خواب ایک دوسرے سے بانٹتے تھے۔ ارسلان کا خواب تھا کہ وہ ایک دن شہر جا کر ایک بڑا تاجر بنے، جبکہ زینب چاہتی تھی کہ وہ ایک دن اپنا اسکول کھولے اور غریب بچوں کو مفت تعلیم دے۔

ایک دن، جب دونوں دریا کے کنارے بیٹھے اپنے مستقبل کے بارے میں باتیں کر رہے تھے، زینب نے کہا، "ارسلان، کیا ہم واقعی اپنے خواب پورے کر پائیں گے؟ یہ گاؤں تو بہت چھوٹا ہے، اور ہمارے پاس وسائل بھی نہیں ہیں۔" ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا، "زینب، خواب وسائل سے نہیں، ہمت اور محنت سے پورے ہوتے ہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑیں، تو کوئی بھی چیز ہمیں روک نہیں سکتی۔"

یہ الفاظ زینب کے دل میں گھر کر گئے۔ اس نے ارسلان کی طرف دیکھا اور کہا، "تم ٹھیک کہتے ہو۔ ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، اور یہ ہماری سب سے بڑی طاقت ہے۔"

وقت گزرتا گیا، اور دونوں کی دوستی مزید گہری ہوتی گئی۔ لیکن ایک دن، گاؤں میں ایک بڑا طوفان آیا۔ دریا میں سیلاب آ گیا، اور نور پور کے کھیت تباہ ہو گئے۔ ارسلان کے والد کی ساری فصل برباد ہو گئی، اور زینب کے والد کا اسکول بھی سیلاب کی نذر ہو گیا۔ گاؤں کے لوگ پریشان تھے، اور ہر طرف مایوسی چھائی ہوئی تھی۔

ارسلان اور زینب نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے لوگوں کی مدد کریں گے۔ انہوں نے گاؤں کے نوجوانوں کو اکٹھا کیا اور ایک منصوبہ بنایا۔ ارسلان نے کہا، "ہمیں شہر جا کر امداد مانگنی چاہیے۔ شاید کوئی بڑا تاجر یا ادارہ ہماری مدد کر سکے۔" زینب نے اس کی حمایت کی اور کہا، "میں اپنے والد کے دوستوں سے رابطہ کروں گی جو شہر میں رہتے ہیں۔ وہ ہماری مدد کر سکتے ہیں۔"

دونوں نے مل کر شہر کا سفر شروع کیا۔ یہ ان کا پہلا بڑا سفر تھا، اور ان کے دل میں خوف بھی تھا اور امید بھی۔ شہر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ وہاں کی زندگی گاؤں سے بالکل مختلف تھی۔ بلند و بالا عمارتیں، تیز رفتار گاڑیاں، اور ہر طرف ہجوم۔ ارسلان اور زینب کو لگا جیسے وہ کسی نئی دنیا میں آ گئے ہوں۔

شہر میں انہوں نے ایک بڑے تاجر، حاجی صاحب سے ملاقات کی۔ حاجی صاحب ایک نیک دل انسان تھے، لیکن ان کا خیال تھا کہ غریب لوگوں کی مدد کرنے سے پہلے ان کی نیت کو پرکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے ارسلان اور زینب سے کہا، "تم دونوں مجھے اپنی سچائی ثابت کرو۔ اگر تم واقعی اپنے گاؤں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہو، تو میں تمہاری مدد کروں گا۔"

ارسلان اور زینب نے حاجی صاحب کے سامنے اپنی کہانی بیان کی۔ انہوں نے بتایا کہ کس طرح ان کا گاؤں تباہ ہو گیا، اور کس طرح وہ اپنے لوگوں کے لیے امید کی کرن بننا چاہتے ہیں۔ زینب نے اپنے والد کے اسکول کے بارے میں بتایا، اور ارسلان نے اپنے والد کی محنت اور کھیتوں کی تباہی کا ذکر کیا۔ ان کی سچائی اور جذبے نے حاجی صاحب کا دل جیت لیا۔

حاجی صاحب نے نہ صرف گاؤں کے لیے امداد دی، بلکہ انہوں نے ارسلان اور زینب کو شہر میں رہ کر اپنے خواب پورے کرنے کا موقع بھی دیا۔ ارسلان نے حاجی صاحب کے ساتھ تجارت سیکھنی شروع کی، جبکہ زینب نے شہر کے ایک اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔ دونوں نے دن رات محنت کی، اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی۔

لیکن زندگی ہمیشہ آسان نہیں ہوتی۔ شہر کی چکاچوند اور مقابلے کی دوڑ میں، ارسلان اور زینب کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔ ارسلان کو تجارت میں دھوکہ دہی کا سامنا کرنا پڑا، جبکہ زینب کو اسکول میں حسد اور مقابلے کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن ان دونوں نے کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہ چھوڑا۔ جب ارسلان مایوس ہوتا، زینب اسے حوصلہ دیتی۔ جب زینب کے خواب کمزور پڑتے، ارسلان اسے یاد دلاتا کہ وہ کتنی مضبوط ہے۔

ایک دن، جب دونوں شہر کے ایک پارک میں بیٹھے تھے، زینب نے کہا، "ارسلان، کیا تمہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے خواب پورے کر پائیں گے؟" ارسلان نے مسکراتے ہوئے کہا، "زینب، ہم نے اپنے گاؤں کو بچانے کے لیے سیلاب سے لڑا، شہر کی مشکلوں سے لڑا، اور اپنے آپ سے لڑا۔ اب ہم اپنے خوابوں سے کیسے ہار سکتے ہیں؟"

وقت گزرتا گیا، اور دونوں نے اپنی محنت سے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا۔ ارسلان ایک کامیاب تاجر بن گیا، اور زینب نے اپنا اسکول کھول لیا جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی تھی۔ انہوں نے اپنے گاؤں نور پور کو بھی دوبارہ آباد کیا۔ کھیت دوبارہ سرسبز ہو گئے، اور اسکول دوبارہ کھل گیا۔

آخر میں، ارسلان اور زینب نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ وہ کبھی ایک دوسرے کا ساتھ نہیں چھوڑیں گے۔ ان کی دوستی اور محبت نے نہ صرف ان کے خواب پورے کیے، بلکہ ان کے گاؤں کے لوگوں کے لیے بھی امید کی ایک نئی کرن بن گئی۔

سبق:

 یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچی دوستی اور محبت سے بڑھ کر کوئی طاقت نہیں۔ اگر ہم ایک دوسرے کا ساتھ دیں، تو کوئی بھی مشکل ہمیں روک نہیں سکتی۔

تبصرے