عنوان: نور کا سفر — ایک سچے مسلمان کی تلاش
حصہ 1: ایک چھوٹا سا گاؤں
کہانی کا آغاز پاکستان کے ایک دور افتادہ، پہاڑوں سے گھِرے گاؤں سے ہوتا ہے جس کا نام نورپور تھا۔ وہاں کے لوگ نہایت سادہ، محنتی اور دیندار تھے۔ زندگی کا ہر پہلو اسلامی تعلیمات کے مطابق چلایا جاتا تھا۔ اذان کی آواز سے صبح کا آغاز ہوتا، اور مغرب کے بعد ہر گھر میں قرآن کی تلاوت سنائی دیتی۔
اسی گاؤں میں ایک تیرہ سالہ لڑکی نور اپنے والدین کے ساتھ رہتی تھی۔ وہ نہایت ذہین، ایماندار اور نرم دل لڑکی تھی۔ اُس کے والد ایک درزی تھے اور والدہ قرآن پاک کی معلمہ۔ نور روز اسکول جاتی، قرآن بھی سیکھتی اور شام کو اپنی والدہ کا ہاتھ بٹاتی۔
نور کو ہمیشہ یہ سوال ستاتا کہ "کیا میں واقعی ایک سچی مسلمان ہوں؟"۔ وہ اکثر دعا کرتی، “یا اللہ! مجھے سچائی، نیکی، اور ایمان کے اس راستے پر لے چل جو تیرے سب سے زیادہ پسندیدہ بندوں کا ہے۔”
حصہ 2: خواب جو بدل دے زندگی
ایک رات نور نے خواب دیکھا کہ ایک نورانی بزرگ اسے کہہ رہے ہیں، “بیٹی، اگر تمہیں سچے مسلمان کی راہ چاہیے، تو دل کی آنکھ کھولو، اور پانچ نشانیاں تلاش کرو۔ جو انہیں پا لے، وہ کامیاب ہو جاتا ہے۔”
نور جاگ گئی۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب چمک تھی۔ وہ جان چکی تھی کہ اب اسے محض عبادات پر قناعت نہیں کرنی بلکہ سچے کردار کا سفر اختیار کرنا ہے۔
حصہ 3: پہلی نشانی — صدقہ
نور نے اپنے اسکول کی فیس بچا کر ایک بوڑھی خاتون کو دوائیں دلوائیں۔ اس دن اس نے سیکھا کہ صدقہ محض پیسے دینے کا نام نہیں بلکہ دل سے کسی کی تکلیف بانٹنے کا عمل ہے۔
وہ خاتون رو پڑی اور نور کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگی، “اللہ تجھے زندگی بھر عزت دے۔” نور کو پہلا اطمینان حاصل ہوا۔ شاید یہ پہلی نشانی تھی۔
حصہ 4: دوسری نشانی — صبر
چند دن بعد نور کے والد سخت بیمار ہو گئے۔ درزی کی دکان بند ہو گئی اور گھر میں فاقے کی نوبت آ گئی۔ نور نے بھوک برداشت کی، مگر شکوہ نہ کیا۔ اس نے محلے میں سب کے کپڑے دھوئے، بچیوں کو قرآن پڑھایا اور گھر چلانے میں والدہ کا ساتھ دیا۔
یہ وقت نہایت مشکل تھا۔ مگر نور نے سیکھا کہ صبر کا پھل ہمیشہ میٹھا ہوتا ہے۔ والد کی صحت بہتر ہوئی اور نور کی نیک نامی پورے گاؤں میں پھیل گئی۔
حصہ 5: تیسری نشانی — سچائی
ایک دن نور کے اسکول کی دوست عائشہ نے چوری کر لی اور الزام نور پر لگایا۔ اسکول کی پرنسپل نے نور کو بلا کر سختی سے پوچھ گچھ کی۔ نور نے روتے ہوئے کہا، “میں نے سچ کہا، لیکن سزا بھی قبول ہے۔”
تبھی ایک طالبہ نے سچائی بتا دی۔ نور بے گناہ ثابت ہوئی۔ پرنسپل نے نور سے معذرت کی اور اسے “سچائی کا تاج” عطا کیا۔ نور جان گئی کہ سچائی مشکل ضرور ہے، مگر عزت کی ضمانت بھی ہے۔
حصہ 6: چوتھی نشانی — معافی
چند دن بعد وہی عائشہ نور کے دروازے پر آئی۔ اس نے روتے ہوئے معافی مانگی۔ نور کے دل میں ایک لمحے کے لیے غصہ آیا، مگر اس نے یاد کیا، “اللہ معاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔”
نور نے عائشہ کو گلے لگا لیا اور کہا، “ہم سب خطاکار ہیں، مگر معاف کرنے والا دل سب سے بڑا ہوتا ہے۔”
حصہ 7: پانچویں نشانی — تقویٰ
نور کے گاؤں میں ایک امیر تاجر آیا۔ اس نے نور کو بہت بڑی رقم دینے کی پیشکش کی تاکہ وہ اس کی بیٹی کو امتحان میں پاس کرا دے۔ یہ حرام کمائی تھی، مگر فقر کی زندگی نور کو جھنجھوڑنے لگی۔
اس نے دعا کی، “یا اللہ، میرے دل کو مضبوط کر، میں تیری رضا کے خلاف نہیں جاؤں گی۔” نور نے پیسے لینے سے انکار کیا اور تاجر سے کہا، “میری محنت اللہ کے لیے ہے، حرام سے حاصل رزق برکت نہیں دیتا۔”
وہ لمحہ نور کے لیے سب سے اہم تھا۔ اس دن اس نے آخری نشانی بھی حاصل کی — تقویٰ یعنی اللہ کا ڈر اور پاکیزگی۔
اختتام: روشنی کا سفر مکمل
کچھ دن بعد نور کو پھر وہی خواب آیا۔ وہی بزرگ نظر آئے، کہنے لگے، “بیٹی، تُو کامیاب ہو گئی۔ تُو نے پانچوں نشانیاں پا لیں: صدقہ، صبر، سچائی، معافی، اور تقویٰ۔ تُو اب نہ صرف ایک سچی مسلمان ہے، بلکہ دوسروں کے لیے مشعلِ راہ بھی ہے۔”
نور کی آنکھ کھلی تو پورا کمرہ روشنی سے جگمگا رہا تھا۔ وہ سجدے میں گر گئی۔ اب نورپور کی وہ معصوم بچی محض نور نہیں، بلکہ نورِ ہدایت بن چکی تھی۔
اخلاقی سبق:
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ صرف نماز، روزہ ہی کافی نہیں بلکہ کردار، نیت، صبر، سچائی، اور تقویٰ سے ہی انسان سچا مسلمان بنتا ہے۔ ہر بچہ اور ہر بڑا اگر نور کی طرح سچے دل سے ان اصولوں پر چلے تو وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو سکتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں