سچ کا چراغ — حسن بن احمد کی کہانی
حصہ 1: بچپن اور سچائی کی پہلی جھلک
عباسی خلافت کے سنہری دور میں بغداد سے کچھ دور ایک گاؤں "الزہرہ" میں احمد بن علی اپنی بیوی فاطمہ اور بیٹے حسن کے ساتھ رہتا تھا۔
حسن نہایت ذہین، ایماندار، اور مذہب سے محبت رکھنے والا بچہ تھا۔ اس کا دل قرآن کی تلاوت، مسجد کی صفائی، اور بزرگوں کی خدمت میں لگتا تھا۔
احمد بن علی اکثر کہا کرتے، "بیٹا حسن، دنیا میں سب کچھ کھو دینا، مگر سچ کبھی نہ چھوڑنا۔"
ایک دن حسن نے جھوٹ بولنے والے لڑکوں کو بازار میں دھوکہ دیتے دیکھا، اس دن اس نے دل میں عہد کیا کہ وہ ہمیشہ سچ بولے گا۔
حصہ 2: مدرسے کا سفر اور ڈاکو
جب حسن کی عمر دس سال ہوئی تو احمد نے اسے بغداد کے مشہور مدرسہ میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
سفر کے دوران قافلے پر ڈاکو حملہ آور ہوئے۔ حسن نے سچائی سے بتایا کہ اس کے پاس 40 دینار ہیں جو پگڑی میں سل دیے گئے ہیں۔
ڈاکوؤں کا سردار حیران ہو کر بولا: "اتنے چھوٹے ہو کر بھی سچ بولا؟"
حسن نے کہا، "میرے والد نے سچ نہ چھوڑنے کی وصیت کی ہے۔"
اس سچائی نے سردار کا دل بدل دیا۔ وہ اور اس کے ساتھی تائب ہو گئے، اور سب مال واپس کر دیا۔
حصہ 3: مدرسے کی زندگی اور آزمائشیں
مدرسے میں حسن کو علم کے ساتھ ساتھ دیانت، صبر اور قربانی کا سبق بھی ملا۔ ایک دن مدرسے کے بیت المال میں آگ لگ گئی۔
سب کو شک ہوا کہ حسن نے رقم لی ہے۔ لیکن حسن نے صبر کیا اور تحقیق کے بعد اصل چور پکڑا گیا۔
اس دن سب کو حسن کی سچائی اور صبر پر یقین آ گیا۔ وہ مدرسے کا امام مقرر ہوا۔
حصہ 4: مکہ مکرمہ کا سفر
مدرسے کی تعلیم مکمل کر کے حسن نے ارادہ کیا کہ حج پر جائے۔ راستے میں کئی بار اس کا صبر اور ایمانداری آزمائی گئی۔
مکہ مکرمہ میں اسے ایک بوڑھے حاجی کی جان بچانے کا موقع ملا، جو بعد میں خلیفہ کا نمائندہ نکلا۔
حصہ 5: خلافت سے ملاقات اور انعام
حج کے بعد حسن کو خلیفہ ہارون الرشید کے دربار میں بلایا گیا۔ خلیفہ نے حسن کی شہرت سن رکھی تھی۔
خلیفہ نے کہا، "کاش سب مسلمان تم جیسے ہوں۔ تم سچ کا چراغ ہو۔"
حسن کو بغداد کے سب سے بڑے مدرسے کا مہتمم بنایا گیا۔
اس کی زندگی کا مقصد تھا: "سچ بولنا، دیانت رکھنا، اور اللہ پر یقین۔"
اخلاقی سبق
یہ کہانی ہمیں سکھاتی ہے کہ سچائی، صبر، قربانی، اور ایمان نہ صرف اللہ کے قریب کرتے ہیں بلکہ دنیا میں عزت بھی دلاتے ہیں۔
حسن بن احمد کی زندگی ہر مسلمان کے لیے مشعلِ راہ ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں