دادا آ گئے (ربیع الاول اسپیشل)

عنوان: دادا آ گئے (ربیع الاول اسپیشل)

حصہ اول: دادا کی واپسی کا انتظار



احمد چھ سال کا ایک ذہین اور پُرجوش بچہ تھا۔ وہ اپنے والدین کے ساتھ ایک چھوٹے سے گاؤں میں رہتا تھا جہاں ہر طرف ہریالی، ندی، اور چھوٹے چھوٹے گھر تھے۔ احمد کی دادی اماں اُس کے لیے ماں جیسی تھیں۔ وہ اُسے ہر رات سونے سے پہلے کہانیاں سنایا کرتی تھیں، جن میں کبھی شہزادے ہوتے، کبھی پریاں، اور کبھی پیارے نبی ﷺ کا ذکر۔

ربیع الاول کا مہینہ شروع ہوچکا تھا اور ہر طرف خوشی کا سماں تھا۔ گلیوں میں سبز جھنڈیاں لگی ہوئی تھیں، لوگ گھروں کو سجا رہے تھے، اور مسجد میں نعت خوانی کی تیاری ہو رہی تھی۔ احمد دادی اماں کے پاس بیٹھا، ایک کاغذ پر سبز رنگ سے "آمد مصطفیٰ ﷺ مبارک ہو" لکھ رہا تھا۔

"دادی اماں! کیا دادا اب بھی نہیں آئیں گے؟" احمد نے پوچھا۔

دادی اماں نے مسکرا کر اُس کے سر پر ہاتھ پھیرا: "ان شاء اللہ بیٹا، وہ اسی ہفتے واپس آ جائیں گے۔ اُنہیں ربیع الاول کے جشن میں ہمارے ساتھ شامل ہونا بہت پسند ہے۔"

دادا حاجی صاحب مکہ مکرمہ گئے ہوئے تھے، اور احمد بے چینی سے اُن کی واپسی کا منتظر تھا۔ وہ جانتا تھا کہ دادا کے آتے ہی گھر میں نعتوں کی محفل سجائی جائے گی، لنگر تقسیم ہوگا، اور سب مل کر میلاد پڑھیں گے۔


حصہ دوم: پیارے نبی ﷺ کی ولادت کی کہانی

ایک رات دادی اماں نے احمد کو خاص طور پر اپنے قریب بلایا۔ وہ جانتی تھیں کہ احمد کے دل میں پیارے نبی ﷺ سے محبت پیدا ہو رہی ہے۔

"آج میں تمہیں ہمارے نبی ﷺ کی ولادت کا قصہ سناؤں گی،" دادی اماں نے کہا۔

احمد کی آنکھیں چمکنے لگیں۔ وہ دادی اماں کی گود میں سر رکھ کر سننے لگا۔

"بیٹا، آج سے تقریباً چودہ سو سال پہلے، مکہ مکرمہ میں ایک ایسا وقت تھا جب لوگ بہت بُرے کام کرتے تھے۔ وہ جھوٹ بولتے، بتوں کی پوجا کرتے، عورتوں کو حقیر جانتے، اور رحم دل نہ تھے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کا دروازہ کھولا اور حضرت آمنہؓ کے گھر ایک ایسا بچہ پیدا ہوا، جس نے دنیا کو اندھیروں سے نکال کر روشنی عطا کی۔ وہ بچہ محمد ﷺ تھا۔"

"دادی اماں، کیا واقعی لوگ اتنے بُرے تھے؟" احمد نے حیرانی سے پوچھا۔

"ہاں بیٹا، لیکن ہمارے نبی ﷺ سچے، دیانتدار، اور نہایت رحم دل تھے۔ وہ یتیموں کا سہارا بنے، غلاموں کو آزاد کروایا، اور عورتوں کو عزت دی۔ اُن کا اخلاق سب سے اعلیٰ تھا۔ اُنہوں نے کسی پر ظلم نہیں کیا، ہمیشہ معاف کیا۔ اسی لیے وہ دنیا کے سب سے عظیم انسان بنے۔"


حصہ سوم: خواب کا نورانی پیغام

اسی رات احمد کو ایک عجیب خواب آیا۔ اُس نے دیکھا کہ ایک روشنی سے بھرے باغ میں وہ خود کھڑا ہے۔ درختوں سے سبز روشنی نکل رہی ہے، پرندے نعتیں پڑھ رہے ہیں، اور ایک نورانی ہستی اُس کے قریب آ رہی ہے۔

"کیا تم احمد ہو؟" ہستی نے پوچھا۔

"جی، اور آپ کون ہیں؟" احمد نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔

"میں وہ ہوں جو دنیا میں رحم کا پیغام لے کر آیا، محمد ﷺ۔ تمہارا دل سچا ہے، اور تمہاری محبت مجھے کھینچ لائی۔ ہمیشہ سچ بولنا، رحم کرنا، اور دوسروں کی مدد کرنا، تبھی تم مجھ سے قریب ہو سکو گے۔"

احمد کی آنکھ کھل گئی۔ اُس کے جسم میں ایک عجیب سکون اور روشنی بھر چکی تھی۔ اُس نے فوراً وضو کیا، دو نفل ادا کیے اور دادی اماں کو جا کر سب کچھ بتایا۔

دادی اماں کی آنکھوں میں آنسو تھے: "بیٹا، تُو خوش نصیب ہے، رب نے تجھے بہت بڑا اشارہ دیا ہے۔ اب تیرا فرض ہے کہ تُو اس پیغام کو اپنی زندگی کا حصہ بنا لے۔"

(جاری ہے...)

(اگلے حصے میں: احمد کی نعت خوانی کی محفل، دادا کی آمد، اور گاؤں میں روشنی کا پیغام)

حصہ چہارم: احمد کی نعت خوانی کی محفل اور دادا کی واپسی

ربیع الاول کی گیارہ تاریخ کو گاؤں کی مرکزی مسجد میں میلاد کی محفل رکھی گئی تھی۔ احمد صبح سویرے اٹھا، غسل کیا، نیا سفید کُرتا پاجامہ پہنا اور دادی اماں کے ساتھ مسجد کی جانب روانہ ہو گیا۔ مسجد کے اندرونی حصے کو سبز جھنڈیوں اور برقی قمقموں سے خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ ہر طرف خوشبوئیں مہک رہی تھیں اور بچوں کی چہکار سے ماحول مزید خوشگوار ہو گیا تھا۔

مولانا صاحب نے محفل کا آغاز تلاوتِ قرآن سے کیا۔ اس کے بعد مختلف نعت خواں حضرات نے حضور ﷺ کی شان میں نعتیں پیش کیں۔ احمد مسلسل محفل کو غور سے سنتا رہا، اور اس کے دل میں ایک خواہش جاگنے لگی۔

اچانک مولانا صاحب نے اعلان کیا: "آج کی محفل میں ہمارے ننھے بچوں کو بھی موقع دیا جائے گا کہ وہ پیارے نبی ﷺ کی محبت میں نعت پڑھیں۔"

احمد کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ دادی اماں نے اُس کے ہاتھ کو تھاما اور کہا: "بیٹا، جا! رب تجھے ہمت دے۔"

احمد اسٹیج پر گیا۔ سب کی نظریں اُس پر تھیں۔ اُس نے مائیک پکڑا، درود شریف پڑھا اور اپنی خوبصورت آواز میں نعت پڑھنا شروع کی:

"محمد کا روزہ قمر دیکھتا ہے محمد کی عظمت کو رب دیکھتا ہے"

اس کی معصوم آواز، دل سے نکلا ہوا جذبہ اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ نے سب حاضرین کو رُلا دیا۔ لوگوں نے سبحان اللہ کہنا شروع کیا، اور احمد کا دل نور سے بھر گیا۔

محفل کے اختتام پر، مولانا صاحب نے احمد کو گلے لگا کر شاباش دی۔ دادی اماں کی آنکھیں خوشی سے بھیگ چکی تھیں۔

محفل ختم ہی ہوئی تھی کہ گلی کے کونے سے ایک بزرگ شخص آتے دکھائی دیے۔ سفید کپڑوں میں ملبوس، ہاتھ میں چھڑی، چہرے پر نور، اور لبوں پر درود۔

"دادا!" احمد خوشی سے چلایا اور بھاگتا ہوا اُن سے لپٹ گیا۔

دادا حاجی صاحب مکہ مکرمہ سے واپس آ چکے تھے۔ وہ اپنے ساتھ کھجوریں، آب زم زم، اور مدینہ کی خوشبو لائے تھے۔ مگر اُن کا سب سے بڑا تحفہ احمد کے لیے تھا: ایک خوبصورت سبز رنگ کی ٹوپی جس پر سنہری دھاگوں سے "یا محمد ﷺ" لکھا ہوا تھا۔

دادا نے احمد کو گلے لگا کر کہا: "بیٹا، مجھے تم پر فخر ہے۔ آج تم نے جو نعت پڑھی، وہ مدینہ میں بھی سنی گئی ہو گی۔"

گاؤں کے لوگ بھی دادا کی واپسی پر خوشی سے جھوم اٹھے۔ حاجی صاحب نے اعلان کیا کہ اگلے جمعے کو پورے گاؤں کے لیے میلاد کی بڑی محفل اور نیاز رکھی جائے گی۔

(جاری ہے...)

(اگلے حصے میں: احمد کا کردار گاؤں کے لیے ایک مشعلِ راہ بنتا ہے، اور حضور ﷺ کے پیغام کو ہر گھر تک پہنچانے کا عزم کرتا ہے)

تبصرے