کہانی کا عنوان:
"وقت کی قدر – آصف کی بدلی ہوئی دنیا"
ابتداء: ایک سست لڑکا
قصبہ "امید نگر" میں ایک نوجوان لڑکا رہتا تھا جس کا نام آصف تھا۔ آصف ذہین تھا مگر حد درجہ سست اور وقت کا ضیاع کرنے والا۔ اسکول سے آتے ہی وہ یا تو موبائل کھیلنے لگتا یا گلی میں آوارہ پھرتا۔ نہ وقت پر پڑھائی، نہ نماز، نہ والدین کا خیال۔
اس کے والد ایک استاد تھے اور اکثر اُسے سمجھاتے:
"بیٹا، وقت بہت قیمتی ہوتا ہے، جو وقت چلا جائے، وہ لوٹ کر نہیں آتا!"
مگر آصف ہمیشہ ہنستا اور کہتا:
"ابھی تو پوری زندگی پڑی ہے، بابا جی!"
باب 1: خواب کا اشارہ
ایک رات آصف نے ایک عجیب خواب دیکھا۔ خواب میں ایک سفید ریش بزرگ نے اُسے ایک سنسان مقام پر بلایا اور کہا:
"آصف، تمہارا ہر لمحہ قیمتی ہے، مگر تم اسے برباد کر رہے ہو۔ اگر ابھی نہ سنبھلے تو پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے گا۔"
اچانک آصف نے اپنے آپ کو ایک گلی میں تنہا کھڑے پایا، جہاں سب دوست کامیاب ہو چکے تھے، اور وہ تنہا پیچھے رہ گیا تھا۔ وہ چیخا، رویا، مگر وقت واپس نہ آیا۔
وہ ڈر کے مارے اُٹھا اور فوراً جا کر والد کے گلے لگ گیا۔
"بابا! میں سب کچھ بدلنا چاہتا ہوں۔ مجھے وقت کی قدر کرنی ہے۔"
باب 2: نیا آصف
صبح ہوتے ہی آصف نے اپنا معمول بدل دیا۔ اس نے وقت پر اٹھنا شروع کیا، نماز کا اہتمام کیا، پڑھائی کو پہلا درجہ دیا، موبائل بند، دوستوں کی فضول صحبت چھوڑ دی، اور ہر لمحے کو مثبت استعمال میں لانے لگا۔
اس کے اس عمل نے نہ صرف اس کی تعلیمی کارکردگی کو بہتر بنایا بلکہ والدین بھی حیران رہ گئے۔
اساتذہ نے آصف کو اسکول کے لیے رول ماڈل قرار دے دیا۔
باب 3: وقت کا انعام
کچھ ہی ماہ میں آصف نے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کر لی۔ اُسے ایک بڑے کالج کی اسکالرشپ ملی۔ وہاں بھی وہ وقت کا پابند اور محنتی رہا۔ پھر اسے ایک بین الاقوامی ادارے میں داخلہ ملا۔
پانچ سال بعد وہ ایک کامیاب سافٹ ویئر انجینئر بن چکا تھا۔ مگر اُس نے غرور نہ کیا۔ وہ واپس اپنے گاؤں آیا اور وہاں ایک "وقت کی قدر سیکھو" پروگرام شروع کیا۔
باب 4: گاؤں کی تبدیلی
آصف بچوں، نوجوانوں اور والدین کو وقت کے صحیح استعمال، تعلیم، اور محنت کی اہمیت سکھانے لگا۔ اس کے لیکچر سننے دور دراز سے لوگ آتے۔
ایک دن ایک بوڑھے آدمی نے اُس سے پوچھا:
*"بیٹا، تمہیں یہ سب کب سمجھ آیا؟"
آصف مسکرا کر بولا:
"جب میں نے خواب میں دیکھا کہ سب آگے نکل چکے ہیں، اور میں تنہا رہ گیا ہوں!"
اخلاقی سبق:
وقت سب سے قیمتی دولت ہے۔ جو وقت کو ضائع کرتا ہے، وقت اُسے ضائع کر دیتا ہے۔ محنت، وقت کی پابندی، اور والدین کی بات ماننے والے ہی کامیابی کی راہ پر چلتے ہیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں