دوستی کا وعدہ

 

📖 عنوان: دوستی کا وعدہ



باب اول: گاؤں کی صبح

چک نمبر ستاون کا سورج ابھی پوری طرح طلوع نہیں ہوا تھا کہ مرغے نے بانگ دی۔ ہلکی سی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی، اور دھند نے پورے گاؤں کو اپنی آغوش میں لیا ہوا تھا۔ دودھ والے چاچا مختار نے اپنا سائیکل ٹھیک کیا اور کہا:

"اوئے بلا، اٹھ جا پُتر! سکول نئیں جانا آج؟"

بلا، جو ابھی لحاف میں دبکا ہوا تھا، کروٹ بدل کر بولا:

"چاچا جی، آج جمعہ اے... تھوڑا آرام وی کر لین دیو!"

مختار ہنستے ہوئے بولے:

"جمعہ اے تے نماز وی تے اے، رب دے کول وی جانا اے۔"

یہی گاؤں کی خوبصورتی تھی۔ ہر بات محبت سے ہوتی، ہر بات میں خلوص ہوتا۔

بلا ایک تیرہ سالہ بچہ تھا، ذہین، شوخ، اور سب کا چہیتا۔ اس کا بہترین دوست مراد، جو پچھلے گاؤں سے آتا تھا، ہمیشہ اس کے ساتھ ہوتا۔ دونوں کا ساتھ ایسا تھا جیسے دودھ میں شہد۔


باب دوم: نیکی کا بیج

ایک دن بلا اور مراد نے فیصلہ کیا کہ وہ گاؤں کے اسکول کے بچوں کو روز کچھ نہ کچھ سکھائیں گے۔ چاہے وہ صفائی ہو، درخت لگانا ہو یا قرآن کی تعلیم۔

مراد نے کہا:

"بلا یار، ساڈی عمر دے بچے ہور کی کردے نے؟ پر اسی کچھ چنگا کر سکدے آں۔"

بلا نے ہامی بھری، اور دونوں نے اگلے دن اسکول میں چھوٹا سا پودا لگایا۔ بچے جمع ہو گئے، سب نے تالیاں بجائیں، اور ماسٹر جی نے فخر سے دیکھا۔

اسی دن سے یہ دونوں دوست گاؤں کے لیے رول ماڈل بن گئے۔ بچے ان سے متاثر ہوئے، اور بڑے دعائیں دینے لگے۔


باب سوم: آزمائش کا وقت

وقت کا پہیہ ہمیشہ ایک جیسا نہیں رہتا۔ ایک دن بلا کے ابو کو شہر میں نوکری کی آفر آ گئی۔ گھر میں مشورے ہوئے، سب نے سوچا:

"شہر چلے جائیں، بچوں کا مستقبل بہتر ہو گا۔"

بلا دل ہی دل میں ٹوٹ گیا۔ مراد سے جدا ہونے کا خیال ہی اسے رُلا گیا۔

مراد نے اسے گلے لگاتے ہوئے کہا:

"یار بلا، تسی جاو، پر وعدہ کرو کہ دوستی نئیں بھلنی۔"

بلا کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، مگر دل میں ایک عہد بن گیا — دوستی کبھی نہیں مرے گی۔


باب چہارم: شہر کی چمک

شہر آ کر بلا نے نئی دنیا دیکھی۔ اونچی عمارتیں، بڑے اسکول، تیز رفتار زندگی — سب کچھ نیا تھا۔ مگر دل ہمیشہ مراد کی باتوں، ہنسیوں، اور ان لمحوں میں اٹکا رہتا۔

بلا نے اپنے نئے اسکول میں سب سے دوستی کی کوشش کی، لیکن مراد جیسا دوست اسے کوئی نہ ملا۔ اسے احساس ہوا کہ دوستی وہ خزانہ ہے جو پیسوں سے نہیں ملتا۔


باب پنجم: واپسی

دو سال بعد، بلا گرمیوں کی چھٹیوں میں گاؤں واپس آیا۔ گاؤں ویسا ہی تھا، لیکن مراد کچھ بدل گیا تھا۔ وہ سنجیدہ ہو چکا تھا، اس کے چہرے پر تھکن تھی۔

بلا نے اسے گلے لگایا اور کہا:

"یار، تے کی حال اے؟"

مراد نے آنکھیں چمکاتے ہوئے کہا:

"ساڈے یار واپس آ گئے نے... ہُن سب ٹھیک اے۔"

دونوں نے گھنٹوں باتیں کیں، پرانی یادیں تازہ کیں، اور فیصلہ کیا کہ اب گاؤں میں ایک چھوٹا سا لائبریری بنائیں گے، تاکہ بچے پڑھ سکیں، آگے بڑھ سکیں۔


باب ششم: دوستی کا انعام

لائبریری کا آغاز چھوٹے سے کمرے سے ہوا۔ بلا اور مراد نے اپنے جیب خرچ سے کتابیں لائیں، دوسرے گاؤں والوں نے مدد کی، اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ چھوٹی سی جگہ علم کا مرکز بن گئی۔

بچے وہاں آ کر نہ صرف پڑھتے بلکہ مراد اور بلا کی کہانیاں سنتے، جن سے انہیں نیکی، سچائی، اور دوستی کی اہمیت کا پتہ چلتا۔


باب ہفتم: قربانی

ایک دن گاؤں میں شدید بارش ہوئی۔ نالہ لبالب بھر گیا۔ اسکول کے بچے اسکول میں پھنس گئے۔ سب لوگ پریشان ہو گئے۔

مراد نے بلا کی طرف دیکھا اور کہا:

"چل یار، ایہ ساڈا ویلا اے۔ بچیاں نوں بچانا اے۔"

دونوں نے رسیاں باندھیں، پانی میں گھسے، اور ایک ایک بچے کو نکالا۔ پورا گاؤں حیران تھا۔ سب نے تالیاں بجائیں، اور بزرگوں نے دعائیں دیں۔


باب ہشتم: مقامی ہیرو

گاؤں کی پنچایت نے فیصلہ کیا کہ مراد اور بلا کو "شیرِ گاؤں" کا لقب دیا جائے۔ ایک تقریب ہوئی، دونوں دوستوں کو ہار پہنائے گئے، اور بچوں نے پھول نچھاور کیے۔

مراد کی امی نے کہا:

"اللہ نے میرے پُتر نوں ہیرا بنا دتا اے!"


باب نہم: تعلیم اور ترقی

لائبریری اب ایک چھوٹے اسکول میں بدل چکی تھی۔ بلا نے تعلیم جاری رکھی، شہر سے واپس آ کر گاؤں کے بچوں کو پڑھانا شروع کیا۔ مراد نے زراعت میں ڈگری لی اور گاؤں کی زمینوں پر جدید طریقے متعارف کروائے۔

گاؤں اب ترقی کی راہ پر چل پڑا تھا۔ سب بچے تعلیم یافتہ ہو رہے تھے۔ ہر شخص ایک ہی بات کہتا:

"ایناں دو دوستاں نال ساڈا مستقبل روشن ہو گیا اے۔"


باب دہم: دوستی کا وعدہ — حتمی باب

بیس سال گزر چکے تھے۔ گاؤں اب شہر کے برابر آ چکا تھا۔ بلا اور مراد اب گاؤں کے بزرگوں میں شمار ہوتے تھے، لیکن ان کی دوستی ویسی ہی مضبوط تھی۔

ایک دن ایک بچہ ان سے پوچھ بیٹھا:

"بابا جی، ایہ دوستی کِتھوں آئی؟"

مراد نے مسکرا کر کہا:

"پُتر، جتھے نیت صاف ہوئے تے دل سچا ہوئے، اوتھے رب وی مہربان ہوندا اے۔ ایہ دوستی اوہ دا انعام اے۔"


🌟 اختتام:

یہ کہانی صرف دو دوستوں کی نہیں، بلکہ ہر اس بچے کے لیے ہے جو سچائی، محبت، قربانی اور نیکی کے راستے پر چلنا چاہتا ہے۔

تبصرے