کہانی کا عنوان:
"سچائی کا انعام – ایک ننھے چرواہے کی ایمانداری"
ابتداء: گاؤں کا چرواہا
ایک دور دراز پہاڑی علاقے میں ایک چھوٹا سا خوبصورت گاؤں "نور پور" واقع تھا۔ وہاں کے لوگ محنتی، سادہ دل اور ایک دوسرے کا خیال رکھنے والے تھے۔ اسی گاؤں میں رہتا تھا ایک غریب مگر سچا لڑکا جس کا نام علی حسن تھا۔ وہ اپنے بیمار والدین کا واحد سہارا تھا اور روزانہ گاؤں کے باہر وادی میں اپنی بکریاں چرانے جاتا۔
علی نہایت ایماندار، صاف دل، اور سچ بولنے والا لڑکا تھا۔ حالانکہ اس کی زندگی مشکلات سے بھری ہوئی تھی، لیکن اس نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور کبھی کسی کا حق نہیں مارا۔
باب 1: علی کی سادہ زندگی
علی صبح سویرے اُٹھتا، وضو کرتا، نماز پڑھتا، اور پھر اپنی لکڑی کی چھڑی اٹھا کر بکریوں کے ساتھ جنگل کی طرف روانہ ہو جاتا۔ جنگل میں سبزہ بہت ہوتا اور بکریاں مزے سے چرنے لگتیں۔ علی ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر کبھی رباعیات پڑھتا، کبھی اپنی ماں کی دی ہوئی روٹی کھاتا، اور کبھی جنگل کی آوازوں میں کھو جاتا۔
ایک دن جب وہ واپس آ رہا تھا، اسے راستے میں ایک چمکتی ہوئی چیز نظر آئی۔ اس نے قریب جا کر دیکھا تو وہ ایک سنہری چمکدار پرس تھا۔ علی نے اُسے اٹھایا اور کھول کر دیکھا۔ اندر ہزاروں روپے، کچھ زیورات، اور ایک چھوٹا سا شناختی کارڈ تھا۔
باب 2: امتحان
علی کے دل میں شیطان نے وسوسہ ڈالا:
"یہ پیسے تیرے ہیں، کوئی نہیں جانتا تو نے یہ پرس اٹھایا ہے، تو غریب ہے، تیرا حق ہے۔"
مگر پھر اس کے ضمیر کی آواز آئی:
"یہ میرا نہیں، یہ کسی کا امانت ہے، اور سچائی کا تقاضا یہ ہے کہ میں اسے لوٹا دوں۔"
علی نے پرس کو اچھی طرح لپیٹا، اپنے تھیلے میں رکھا، اور واپس گاؤں کی طرف چل دیا۔ راستے میں کئی بار اس کا دل لرزا، مگر اُس کی ایمانداری غالب رہی۔
باب 3: سچائی کی تلاش
گاؤں پہنچ کر علی نے پہلے اپنے والدین کو سب کچھ بتایا۔ والدہ نے بیٹے کی پیشانی چومی اور کہا:
"بیٹا! یہ سچائی تیرے نانا سے ملی ہے، اللہ تیرے نصیب اچھے کرے گا۔"
پھر وہ شناختی کارڈ کو دیکھتے ہیں، اس پر ایک خاتون کا نام لکھا ہوتا ہے: "فریحہ بیگم"، اور ساتھ ہی شہر کا پتہ بھی۔
علی اگلے دن ہی گاؤں کے نمبردار کے ساتھ شہر جاتا ہے۔ کئی گھنٹوں کی تلاش کے بعد وہ ایک بڑی کوٹھی کے دروازے پر پہنچتے ہیں۔ دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔ اندر سے ایک بزرگ خاتون باہر آتی ہیں۔ علی ہاتھ جوڑ کر بولتا ہے:
"بی بی جی، کیا آپ فریحہ بیگم ہیں؟"
خاتون حیرت سے کہتی ہیں:
"ہاں بیٹا، میں ہی ہوں۔"
علی نے پرس نکالا اور انہیں پیش کیا۔ خاتون کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگتے ہیں۔
باب 4: انعام نہیں، دعا چاہیئے
فریحہ بیگم علی کو اندر بلاتی ہیں، پانی پلاتی ہیں، اور پھر جب ساری بات سنتی ہیں تو وہ علی کو زور سے گلے لگا لیتی ہیں۔
"بیٹا، یہ پرس میں نے ایک ہفتہ پہلے جنگل میں کھو دیا تھا۔ تم بہت عظیم ہو۔"
وہ علی کو ایک موٹی رقم دینے لگتی ہیں، مگر علی منع کر دیتا ہے۔
"بی بی جی، میں نے یہ اللہ کے لیے واپس کیا ہے۔ مجھے انعام نہیں، صرف دعا چاہیئے۔"
فریحہ بیگم خوش ہو کر کہتی ہیں:
"بیٹا، تم جیسے بچے اس ملک کا مستقبل ہو۔ میں تمہاری تعلیم کا پورا خرچ اٹھاؤں گی۔"
باب 5: نئی دنیا
یوں علی واپس اپنے گاؤں آتا ہے، مگر اب اس کی زندگی بدل چکی ہوتی ہے۔ وہ ایک اسکالرشپ پر شہر کے سب سے بڑے اسکول میں پڑھنے لگتا ہے۔ وہ اپنی محنت اور ایمانداری سے آگے بڑھتا ہے۔ کئی سالوں بعد علی افسر بن جاتا ہے اور اپنے گاؤں میں اسکول، کلینک، اور مسجد بنواتا ہے۔
لوگ اُس کی تعریف کرتے ہیں، بچے اُس کی کہانی سنتے ہیں، اور ہر کوئی کہتا ہے:
"یہ وہی علی ہے جس نے سچائی کے لیے دولت کو ٹھکرا دیا تھا!"
اخلاقی سبق:
سچائی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ اگر ہم دل سے سچ بولیں، ایمانداری اپنائیں، اور کسی کی امانت میں خیانت نہ کریں، تو اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی عطا فرماتا ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں